حضوراکرم ﷺ کے طائف کے سفر کا قصہ
نبوت مل جانے کے بعد نو برس تک نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہو گئ تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے آپؐ کی مدد کرتے تھےاکژ کفار مکہ آپؐ اور آپ ﷺکے صحابہ اکرام کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے، مذاق اڑاتے تھے اور جو ہو سکتا تھااسے در گزر نہ کرتے تھے۔ حضورﷺ کے چچا ابو طالب بھی ان نیک لوگوں میں شامل تھے۔ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضور ﷺ کی ہر قسم کی مدد فرماتے تھے۔ دسویں سال جب ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کھلے مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا۔
حضور اقدس ﷺ اس خیال سے طائف تشریف لے گئےکہ وہاں قبیلہ ثقیف کی بڑی جماعت ہے۔ اگر وہ قبیلہ مسلمان ہو جائےتو مسلمانوں کو ان تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائے، وہاں پہنچ کر قبیلے کے تین سرداروں سے جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھےگفتگو فرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اللہ کے رسولﷺ کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا مگر ان لوگوں نے بجائے اسکے دین کی بات کو قبول کرتے یا کم سے کم عرب کی مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نو وارد مہمان خاطر و مُدارات کرتے صاف جواب دے دیانہائت بے روخی اور بد اخلاقی سے پیش آئے۔
اُن لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپؐ یہاں تشریف فرما لیں۔ جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات کی تھی وہ شریف ہونگے۔ اور مُہَذَب گفتگو کریں گے۔ ان میں سے ایک شخص بولاکہ اوہو!آپؐ ہی کو اللہ نے نبی ؐ بنا کر بھیجا ہے۔ دوسرا بولا کہ اللہ کو تمہارے سوا کوئی ملتا ہی نہی تھاجسکو رسول ؐ بنا کر بھیجتے ۔ تیسرے نے کہامیں تجھؐ سے بات کرنا نہی چاہتا ۔ اس لیئے اگر تو ﷺ واقعی ہی نبی ہے جیسا کہ دعویٰ ہےتو تیری ؐ بات سے انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہی اور اگر جھوٹ ہے تو میں ایسے شخص سے بات نہی کرنا چاہتا۔ اسکے بعد ان لوگوں سے نا امید ہو کر حضورِاکرم ﷺ نے لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا، کہ آپ تو ہمت اور استقلال پہاڑ تھے۔ مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا بجائے قبول کرنے کے حضورؐ سے کہا کہ ہمارے شہر سے فوراًنکل جاؤ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہووہاں چلے جاؤ حضورِاکرم ﷺ جب اُن سے بالکل مایوس ہوکر واپس ہونے لگے تو اِن لوگوں نے شہر کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپؐ کا مذاق اڑائیں، تالیاں پیٹیں ، پتھر ماریں ، حتٰی کہ آپ ﷺ کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئے حضورِاقدسﷺ اسی حالت میں واپس ہوئے جب راستے میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان ہوا تو حضورﷺ نے یہ دعا مانگی۔
حضور ﷺ کی دعا
اے اللہ تجھی سے شکایت کرتا ہوں میں۔ اپنی کمزوری اور بے کَسی کی اور لوگوں میں ذلت اور رُسوائی کی ۔ اے ارحَم َالرّٰاحمین تو ہی ضُعفاء کا رب ہےاور تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے۔ کسی اجنبی بیگانے کے ۔ جو مجھے دیکھ کر تُرش رُو ہوتا ہے۔ اور منہ چڑھاتا ہے۔ یا کے کسی دشمن کے جسکو تو نے مجھ پر قابو دے دیا ۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہی ہے ۔ تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہی ہے۔ تیری حفاظت مجھے کافی ہے۔ میں تیرے چہرے کا اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گیئں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں۔ کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو تیری ناراضگی کا اس وقت تک دور کرنا ضروری ہےجب تک تو راضی نہ ہو، نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوّت .
مَالِکُ المُلک کی شان ِ قہاری کو اس پر جوش آنا ہی تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو جو اپ سے ہوئی سُنی اور انکے جوابات سُنے اور ایک فرشتہ کو جس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے۔ آپکے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اسکو حکم دیں۔ اسکے بعد اس فرشتہ نے سلام کیا اور عرض کیا جو ارشاد ہو میں اسکی تعمیل کروں۔ اگر ارشاد ہو تو میں دونوں جانب کے پہاڑ وں کو آپس میں ملا دوں ۔ ؟جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا اور جو سزاء آپ تجویز فرمائیں؟ حضور ﷺ کی رحیم و کریم ذات نے جواب دیا کہ میں اللہ سے اس کی امید رکھتا ہوں۔ کہ اگر یہ مسلمان نہی ہوئے تو انکی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں۔ جو اللہ کی پرستش کریں۔ اور اسکی عبادت کریں۔
یہ ہیں اخلاق اس کریم ذات کے جسکے ہم لوگ نام لیوا ہیں۔ کہ ہم ذرہ سی تکلیف سے ، کسی کی معمولی سی گالی دے دینے سے ایسے بھڑک اٹھتے ہیں۔ کہ پھر عمر بھر اسکا بدلہ نہی اترتا، ظلم پر ظلم اس پر کرتے رہتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں اپنے محمدی ؐ ہونے کا ۔ نبی ؐ کے پیرو بننے کا ، نبیؐ اتنی سخت تکلیف اور مشقّت اٹھانے کے باوجود نہ بدُعا فرماتے ہیں۔ اور نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔