Bismillah Ki Tafseer In Urdu

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

” اعوذ باللہ ” کی تفسیر

اعوذ باللہ من شیطان الرجیم

 لفظی ترجمہ : میں پناہ چاہتاہوں اللہ کی سے شیطان مردود۔

بامحاورہ ترجمہ :۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔

” اعوذ باللہ ” پڑھنے کی وجہ اور اسکے فضائل

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے شیطان کے شر سے بچنے کے لئے (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) پڑھ لی جائے۔

شیطان انسان کا دشمن ہے، وہ ہر وقت انسان کے نیک عملوں کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اگر کوئی انسان کسی انسان سے دشمنی کرے تو اس کی دشمنی کا علاج اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے، احسان کیا جائے تاکہ وہ دوست بن جائے، لیکن شیطان ایسا دشمن ہے کہ اس کے ساتھ ہم اچھا سلوک بھی نہیں کرسکتے اور یہ دشمن اچھے سلوک و احسان کے باوجود دشمنی نہیں چھوڑتا اسے انسان کی تباہی و بربادی میں مزہ آتا ہے

 اس لئے شیطانوں کی دشمنی سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پناہ لینے کی تاکید فرمائی ہے اس نے ہمارے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بہکا کر جنت سے نکالا ہے تو خیال کیجئے ہمارے ساتھ اس کا کیا معاملہ ہوگا ؟ ہمیں  گمراہ کرنے کے لیے اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے قسم اٹھائی ہے کہ تیری عظمت کی قسم، تیرے جلال کی قسم، تیری کبریائی کی قسم ! میں اس انسان کو بہکاؤں گا جس طرح آپ نے مجھے گمراہ کیا، میں اس کے آگے سے، اس کے پیچھے سے، اس کے دائیں سے، اس کے بائیں سے حملہ کروں گا، مگر جو تیرے مخلص بندے ہوں گے وہ میرے وار سے بچ جائیں گے۔

” اعوذ باللہ ” پڑھنے کے بہت فائدے ہیں، بےمعنی باتوں سے جو منہ میں ناپاکی اور بدبو پیدا ہوتی ہے وہ اس سے دور ہوتی ہے اور منہ کلام پاک کی تلاوت کے قابل ہوجاتا ہے اس مقدس کلام کے لئے ہمارا منہ اور دل وسوسوں سے پاک ہونا چاہیے اس کے لئے قرآن مجید نے ہمیں ہدایت کی کہ تم اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی بناہ لو کیونکہ شیطان انسان کو دیکھتا ہے انسان اسے نہیں دیکھ سکتا، تو اس نظر نہ آنے والے دشمن کا مقابلہ ہم کس طرح کرسکتے ہیں ایسے دشمن کے وار سے صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔

تفسیر :

اس میں اللہ تعالیٰ کے تین نام آگئے ہیں پہلا : اللہ، دوسرا : رحمن، تیسرا : رحیم، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : مجھ پر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی آیت نازل فرمائی ہے جو سلیمان (علیہ السلام) کے سوا کسی اور پیغمبر پر نازل نہیں ہوئی۔

حضرت جابر (رض) نے فرمایا : جب بسم اللہ کی آیت اتری تو بادل مشرق کی طرف سے چھٹ گئے ہوائیں ٹھہر گئیں، جانوروں نے کہا لگائے، شیطانوں پر آسمان سے شعلے گرائے گئے، پروردگار نے اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ : جس چیز پر میرا نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہوگی۔

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرو جو بھی کام اللہ تعالیٰ کے نام کےبغیر شروع کیا جائے وہ ادھورا رہ جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جب گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم اللہ کہو، جب چراغ گل کرو تو بسم اللہ کہو، برتن ڈھکو تو بسم اللہ کہو، کھانا کھانے، پانی پینے، وضو کرنے، سواری پر سوار ہونے اور اترنے کے وقت بسم اللہ پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ برکت، مدد اور قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے۔

لفظ اللہ خاص اور جامع نام ہے بعض نے لفظ (اللہ) کو اسم اعظم کہا ہے لفظ (اللہ) اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے باقی تمام صفاتی نام ہیں، اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں جن میں مشہور نام (99) ہیں، ان میں آٹھ نام ایسے ہیں کہ کسی کا نام رکھنے کے لیے اس کے ساتھ عبد یا کوئی اور لفظ لگانا ضروری ہے ورنہ (عبد) لگائے بغیر ان ناموں میں سے کسی انسان کا نام رکھنا جائز نہیں۔

آٹھ نام یہ ہیں

(1)۔۔۔ اللہ ذاتی نام ہے، یہ لفظ کس سے بنا ہے یہ خالص علمی بحث ہے عوام کے لئے اس بحث کو یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

(2)۔۔۔ رب : پالنے والا۔

(3)۔۔۔ رحمن : زیادہ رحم کرنے والا : اس کی خاص صفت ہے وہ نافرمانی کرنے کے باوجود بھی رحم کرتا ہے، رحم کرنے کی یہ صفت اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی میں نہیں پائی جاتی۔

(4)۔۔۔ رزاق : رزق دینے والا۔

 (5)۔۔۔ خالق : پیدا کرنے والا۔

(6)۔۔۔ غفار : گناہ بخشنے والا۔

(7)۔۔۔ قدوس : پاک، عیب سے خالی۔

(8)۔۔۔ قیوم : ہمیشہ قائم رہنے والا۔

ہر کام کو ” بسم اللہ ” سے شروع کرنے کی حکمت

اسلام نے ہر کام کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیا ہے جو قدم قدم پر یہ خیال کرتا ہے کہ میرا وجود میرا کوئی کام بغیر اللہ تعالیٰ کے مدد کے اور اس کے ارادے کے نہیں ہوسکتا یہ ایسا کلمہ ہے جس نے ہر انسان کے ہر جائز قول و فعل اور حرکت کو عبادت بنادیا ہے دیکھیے عمل کتنا مختصر ہے اور فائدہ کتنا بڑا، نہ قوت خرچ ہوتی ہیں نہ محنت جس سے دین اور دنیا دونوں سنور جاتی ہیں، ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے ایک مسلمان بھی، مگر مسلمان اپنے منہ میں لقمہ ڈالنے سے پہلے ” بسم اللہ ” کہہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لے کر منہ تک پہنچنے کے لیے لاکھوں فضائی مخلوقات کی توانائی اور انسان کی محنت صرف ہونے کے بعد یہ نوالہ تیار ہوا اس کا حاصل کرنا بندے کے بس کی بات نہیں، اگر اللہ تعالیٰ دانے کو زمین سے نہ اگاتے تو کس کی مجال تھی کہ دانے کو زمین سے اگائے۔

ذرا غور کیجئے کہ ! دانی کو کس نے پھاڑا، اس میں کونپل کس نے نکالی، پھر کس نے پڑھایا اور پکایا، پھر ایک سو دانے کس نے کئے، پھر سورج کی تپش نہ ہوتی تو فصل پکتی کیسے ؟ غرض اللہ تعالیٰ کے ان احسانات میں ڈوب کر جو بندہ ” بسم اللہ ” کہہ کر نوالہ لیتا ہے تو یہ کھانا عبادت بن جاتا ہے اسی سے پہچان ہوتی ہے مومن اور کافر کی، کافر یہ سب کچھ اپنا کمال سمجھتا ہے اور مسلمان اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتا ہے، غور کیجئے ! اس مختصرسی تعلیم نے انسان کو کہا سے کہا تک پہنچا دیا۔

احکام و مسائل :

اس میں دو چیزیں خاص طور پر پائی جاتی ہیں، ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان، دوسرے اس پر بھروسہ، جب کوئی شخص کسی اچھے کام کو شروع کرتے وقت ” بسم اللہ الرحمن الرحیم ” پڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے پروردگار پر ایمان رکھتا ہوں اور اسی کے بھروسے پر یہ کام شروع کرتا ہوں۔

مسئلہ (1)۔۔۔” بسم اللہ الرحمن الرحیم ” سورۃ النمل ” کی ایک آیت ہے، اس لیے یہ بھی قرآن پاک کا ایک جز ہے اور اسکا احترام بھی قرآن مجید کے احترام کی طرح کرنا ضروری ہے اور اس کے بھی وہی حکم ہیں جو قرآن مجید کے ہیں، یعنی : ناپاک آدمی یا حیض و نفاس والی عورت اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتی اور نہ اس کو پڑھ سکتی ہے، اگر کسی علیحدہ کاغذ پر ” بسم اللہ ” لکھی ہوئی ملے تب بھی شرعا نا پاکی کی حالت میں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔

مسئلہ (2):۔۔۔ قرآن مجید ” بسم اللہ ” سمیت کوئی بھی ناپاک آدمی یا حیض و نفاس والی عورت تلاوت کے لئے نہیں پڑھ سکتے، ہاں کوئی استاد یا استانی بچوں کو پڑھاتی ہے اور فی الحال غسل کا کوئی انتظام نہیں تو ہجے سے پڑھا سکتی ہے ایک سانس میں ایک پوری آیت یا آدھی آیت بھی پڑھنا جائز نہیں مثلا : بسم۔ اللہ۔ الرحمن۔ الرحیم اس طرح پڑھیں۔

مسئلہ (3):۔۔۔ ” بسم اللہ ” چونکہ ذکر بھی ہے اس لیے ناپاک آدمی ذکر کے لیے اس کو پڑھ سکتا ہے کیونکہ ذکر ہر حالت میں جائز ہے، جس طرح ناپاکی، ماہواری اور زچگی میں ذکر کے طور پر کلمہ شریف، استغفار، سبحان اللہ، الحمدللہ، یا کوئی اور ذکر پڑھ سکتے ہیں ایسے ہی ” بسم اللہ ” بھی بطور ذکر پڑھ سکتے ہیں لیکن تلاوت کے طور پر نہیں، اس میں بھی پوری ” بسم اللہ الرحمن الرحیم ” نہیں پڑھ سکتے صرف ” بسم اللہ ” پڑھ سکتے ہیں اور ہاتھ لگانا کسی صورت میں جائز نہیں۔

مسئلہ (4):۔۔۔ نماز میں امام ” اعوذ باللہ اور بسم اللہ ” دونوں آہستہ پڑھے گا جو امام کے پیچھے ہو اس کے لیے بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔

مسئلہ (5):۔۔۔ نماز کے دوران الحمدشریف کے بعد جب سورت شروع کرے تو اس کے شروع میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم ” نہ پڑھے۔

مسئلہ (6):۔۔۔ اکیلا آدمی نماز پڑھ رہا ہو تو اس صورت میں ” سبحنک اللھم ” کے بعد اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں پڑھے۔

مسئلہ (7):۔۔۔ جانور کو ذبح کرتے وقت اگر جان بوجھ کر ” بسم اللہ ” نہ پڑھی گئی تو وہ مردار ہے اس کا کھانا جائز نہیں، البتہ اگر بھولے سے ” بسم اللہ ” نہ پڑھی مگر پڑھنے کی نیت دل میں تھی تو یہ جانور حرام نہیں اس کا کھانا جائز ہے۔

مسئلہ (8):۔۔۔ وضو کرتے وقت ” بسم اللہ ” کہنا سنت ہے، بیوی سے ہمبستری سے قبل ” بسم اللہ ” پڑھے اگر اس موقع پر حمل ٹھہر گیا تو ہونے والے بچے کو شیطان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اسی طرح گھر سے نکلتے وقت : بسم اللہ تو کلت علی اللہ پڑھنا چاہیے اور داخل ہوتے وقت یہ  پڑھے  : اللہم انی اسئلک خیر المولج وخیر المخرج بسم اللہ ولجنا وعلی اللہ ربنا توکلنا۔

مسئلہ (9):۔۔۔ جس کاغذ کو بےادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں پڑھ کر پھینک دیا جاتا ہے جیسے : اخبار وغیرہ تو ایسے ہی کاغذ پر ” بسم اللہ ” لکھنا یا اللہ تعالیٰ کا نام لکھنا جائز نہیں، ایسا کرنے والا بےادبی کے گناہ میں شریک ہوگا ایسے اخبار و رسائل پڑھے جانے کے بعد گندگیوں کے ڈھیر پر پڑے نظر آتے ہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سنت ادا کرنے کے لیے زبان سے ” بسم اللہ ” کہے تحریر میں نہ لائے۔

مسئلہ (10):۔۔۔ اسی طرح شادی کارڈ وغیرہ میں ” بسم اللہ ” نہ لکھیں اس سے کلام پاک کی آیت کی بےحرمتی ہوگی جو گناہ ہے ہاں جب کسی کو کارڈ یا رقعہ لکھیں تو زبان سے ” بسم اللہ الرحمن الرحیم ” کہہ کر شروع کریں کارڈ یا رقعہ پر ہرگز نہ لکھیں۔

ذرا غور کریں ! جو لوگ برکت سمجھ کر ایسے کارڈ یا پیغامات میں ” بسم اللہ ” لکھواتے ہیں انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ وہ کارڈ کوڑا کرکٹ کے ڈبوں اور گندی نالیوں میں پڑے نظر آئیں گے ان گندگی کے ڈھیروں پر ایسے کارڈ دیکھ کر دل دہل جاتا ہے لہٰذا اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں : دوزخ کے 19 محافظ ہیں ان سے جو بچنا چاہے ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ” پڑھے اس کے بھی 19 حروف ہیں، ہر حرف فرشتے سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گا۔

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی سورت کے ختم ہونے کا علم اس وقت ہوتا ہے جب ” بسم اللہ ” نازل ہوجاتی تھی اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھتے کہ سورت ختم ہوگئی۔

مسئلہ (11):۔۔۔ ” سورة برات ” (توبہ) کے شروع میں ” بسم اللہ ” نہیں اس لیے اگر ” سورة برات ” ہی سے تلاوت شروع کر رہے ہوں تو ” اعوذ باللہ اور بسم اللہ ” دونوں پڑھی اگر ایک سورت ختم کرکے دوسری سورت شروع کر رہے ہیں تو ” سورة برات ” کے علاوہ ہر سورة کے شروع میں ” بسم اللہ ” پڑھے ” سورة برات ” پر نہ پڑھے، یعنی : درمیان تلاوت ” سورة برات ” آجائے تو اس پر ” بسم اللہ ” نہ پڑھے۔

ہر مشکل اور حاجت کے لئے ” بسم اللہ پڑھے ” چوری اور شیطانی اثر سے حفاظت کے لئے بہترین عمل ہے ذہن اور حافظہ کے لیے 786 مرتبہ پانی پر دم کرکے سوز نکلنے کے وقت پیئے تو ذہن کھل جائے گا اور حافظہ قوی ہوگا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ” بسم اللہ ” ایسی جامع آیت ہے جس میں بہت سے فائدے ہیں، اس کے ایک ایک کلمہ پر غور کریں جیسا کہ لفظ ” اللہ ” یہ ذاتی نام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لئے یہ نام استعمال نہیں ہوسکتا نہ کوئی اس کا حقدار ہے، جب ہم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کسی کام میں ہاتھ ڈالیں تو ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں جب وہ رحمن ہے اور رحیم ہے

تو ہم کو اس کی رحمت پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے مایوس نہیں ہونا چاہیے، یقین کامل اور ایمان کے ساتھ اس پر توکل کرتے ہوئے کام شروع کریں تو یقینا کامیابی ہوگی اس لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جو کام اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع کیا جائے وہ ادھورارہ جاتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی، رحمن اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے وہ سب پر رحم فرماتا ہے چاہے مومن ہو یا کافر، رحیم یہ عام صفت ہے ہر ایک پر رحم کرنے والا ہے، بعض نے کہا رحمن خاص ہے صرف جنت والوں کے لیے مہربان ہونگے اور رحیم عام ہے دنیا و آخرت دونوں میں اس کی رحمت عام ہے۔

Leave a Comment